مومن کے ایک ایک عمل کا زندگی پر اثر ہے جب مکہ جائیں تو جاتے ہوئے جو جذبہ دل میں ہے پہلی نظر کعبة اللہ پر پڑتے ہی اس جذبے پر مہر لگ جائے گی۔ ہمارے ایک دوست ان کے پاس ایک پرانا سا سکوٹر ہے جب سے میں نے شعور کی آنکھ کھولی ہے ان کے پاس وہی ہے پتہ نہیں جن لوگوں کے پاس ویسپا سکوٹرہوتا ہے وہ چھوڑتے ہی نہیں حالانکہ بہت زیادہ بھاری ہوتا ہے۔وہ بڑی عجیب باتیں کرتے ہیں ان کی باتیں مجھے سمجھ نہیں آتیں وہ کہنے لگے حاجی صاحب بسم اللہ‘ آپ تشریف لائے ہیں کوئی زم زم کوئی کھجورتودیں۔ آپ عمرہ کر کے آئے ہیں ماشاءاللہ پھر خود ہی کہنے لگے کہ کپڑوں اور دوسری چیزوں کا اتنا وزن ہو گیا تھا کہ زم زم اور کھجور یں انہوں نے رکھ لیں۔ ہمارے ایک اللہ والے فرماتے تھے کہ جس دنیا کو چھوڑ کے گئے ہو وہاں بھی اس دنیا کی طلب لے کر آئے ہو اور کہہ رہے ہو لبیک الھم لبیک(اے اللہ میں حاضر ہوں) ارے زبان پر تو یہ ہے اور دل میں یہ ہے کہ فلاں کےلئے گھڑی لینی ہے‘ فلاں کے کےلئے فلاں لینا ہے‘ یہ دنیا کی چیزیں تو چھوڑ کر یہاں سے گئے تھے اور صرف اور صرف رب کےلئے گئے تھے اب وہاں بھی رب نہیں ہے‘ تیری حاضری کا کیا بنے گا ؟
جو میں سربسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو صنم آشنا ہے تجھے کیا ملے گا نماز میں
مومن کے ایک ایک عمل کا اثر ہے اس کی زندگی پر‘ اس کے ایمان پر‘ اس کے شعور پر۔ ایک صاحب ٹورنٹو میں رہتے تھے کہنے لگے میری زندگی بس اونچی نیچی گزری میں نے اپنی زندگی میں بہت کچھ کیا پھر اس کا اثر یہ ہوا میرے بڑے بیٹے کے اندر حیا کا ذرہ تک نہیں ہے۔ کہنے لگے اس کا پچھلے دنوں کا ایک واقعہ سناتا ہوںکہ وہ باتھ روم میں گیا نہانے کےلئے تو وہاں تولیہ نہیں تھا سترہ اٹھارہ سال کا بچہ وہیں برہنہ نکل کر باہر آگیا کہ میرا تو لیہ کہاں ہے ‘ماں بہن بیٹھی ہوئی ہیں۔ ہم نے کہا شرم کر کہنے لگا یہ نیچرل چیز ہے فطرت ہے انسان ننگا آیا ہے ننگا جائے گا‘ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ وہ شخص کہنے لگا میں اپنے منہ کو کوستا ہوں اپنے آپ سے کہتا ہوں یہ تیرا قصور ہے یہ تیرے عمل کا اثر ہے کہ تیری بے حیائی کا اثر تیری نسلوں میں منتقل ہوا ہے ۔میرے دوستو! میرا اور آپ کا کوئی عمل انفرادی نہیں ہے۔ ایک بڑھیا میرے پاس آئی زار زار رونے لگی میں نے پوچھا کیوں روتی ہیں کہنے لگی میری تین بیٹیاں ہیں اور تینوں ایسے ہیں جیسے زندہ چڑیوں کو آگ پر رکھا جاتا ہے اور پھر اگلی بات کہنے لگی کہ قصور کچھ میرا بھی ہے کہ میں نے اپنی بہوﺅں کو اس سے زیادہ ستا یا تھا۔ یاد رکھو دوستو! آپ کا کوئی عمل انفرادی نہیں ہے۔ ہاں! آج آپ کے پاس حکومت ہے‘ گھر کی حکمرانی ہے اور وہ ما تحت ہیں تو کوئی حرج نہیں۔ سائے ڈھلتے رہتے ہیں‘ دن بدلتے رہتے ہیں ایک بابا جی اکثر مجھ سے ملتے ہیں اور ایک دن مجھ سے کہنے لگے او طارق سدا نہیں رہنے ہٹ پنساریاں دے‘ سدا نہیں رہنے بیٹھے حکیم‘ کچھ کر لے اور دراصل حقیقت یہی ہے ‘ان کا نام بابا رحم دین ہے ‘چائے کی کیتلی ہر وقت ہاتھ میں ہوتی ہے‘کیتلی کالی ہوئی پڑی ہے‘ جیب میں پیسے نہیں ہوتے ہیںتو دس بیس دفعہ قہوہ ہی پیتے رہتے ہیں پانی لیا تنکے اور لکڑیاں اکٹھی کیں کیتلی چڑھا کے بیٹھ گئے چائے سارا دن پیتے ہیں اللہ جزائے خیر دے ذکر بھی بہت کرتے ہیں ذاکر‘ شاکر‘ آدمی ہیں ۔ عروج و زوال کی داستانیں منفرد ہیں آج اگر عروج ہے کل زوال ہے ہاں تجھے یاد ہی نہیں تیرے کونسے گناہ کی پاداش میں تیرا کونسا گناہ تیری نسلوں کو مل رہا ہے۔
ایک اللہ والے صاحب کشف تھے ان کے پاس لوگ اپنی تنگ دستی و غربت کا گلہ لے کر آتے تھے بعضوں کو دیکھ دیکھ کر فرماتے تھے تمہارے پیچھے بددعائیں تعاقب کر رہی ہیں پوچھنے لگے کیسی بددعائیں؟ کہا تمہاری نسلوں میں کوئی ایسا آدمی تھا جنہوں نے لوگوں کو ستایا تھا ان کی بد دعائیں تعاقب میں ہیں یاد رکھئے گا دعائیں تعاقب میں ہوتی ہیں‘ بد دعائیں تعاقب میں ہوتی ہیں۔ میں دوستوں سے عرض کر رہا تھا غائب کی دعا بڑا کا م کرتی ہے دوست کہنے لگے کہ جی ہم جارہے ہیں اجازت دے دیں میں نے کہا ما شاءاللہ آپ تشریف لے جائیں تو پھر دل میں دعا آئی یااللہ ان کو سدا عافیت سے رکھ۔ اپنی دعا اور غائب کی دعا تاثیر الگ ہوتی ہے کیوں کہتے ہیں عام محاورہ بنا ہوا ہے کہ کسی کی کوئی نیکی کام آ گئی کوئی دعا کام آ گئی وہ دعائیں بڑی طاقت رکھتی ہیں اور قوت رکھتی ہیں جہاں دعائیں طاقت رکھتی ہیں جیسے اچھی نظر لگتی ہے اسی طرح بری نظر بھی لگتی ہے جہاں دعائیں طاقت رکھتی ہیں وہاں بددعائیں بھی طاقت رکھتی ہیں۔ ایک دفعہ ہم سمن آباد جارہے تھے ایک صاحب میرے ساتھ گاڑی میں تھے وہاں ایک برتنوں کی دکا ن تھی مٹی کے بر تنوں کے سامنے سے جب گزرے تو وہ صاحب کہنے لگے کہ یہ شخص میرا ساتھی تھا ہم مکان کی تلاش میں تھے لیکن کسی سے تعلق اور صحبت تھی اور میں ذکر تسبےح کر تا ہوں‘ اس کی برکت سے اللہ پاک نے مجھے بہت بچایا ہو ا ہے اور پھر کہنے لگے اس کا اور میرا گناہ برابر تھا لیکن جب میں اس کے سامنے سے گزرتا ہوں تو منہ چھپا کر گزر جاتا ہوں اس سے سامنا کرتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے۔ مجھے اس لئے شرم آتی ہے کہ اس نے بھی اور میں نے بھی ظلم کیا تھا اور ہم ظالم ہیں اور میں نے توبہ کی اور کسی اللہ والے کا دامن پکڑا تھا انہوں نے توبہ کے راستے دکھائے اللہ کی طرف رجوع کرایا میں سمجھتا ہوں اللہ نے مجھے معاف کردیاہے اور میرے خیرو بر کت اور عافیت کے دروازے کھولے ہیں اور یہ ابھی عتاب میں ہے‘ نہ اس کےلئے گھر میں چین ہے نہ باہر چین ہے۔میرے بھائیو ںاور دوستو! ظلم ظلم ہے‘ چاہے وہ کسی بھی نوعیت کا ہو‘ تمہارے گھر سے لیکر باہر تک آپ کا اور میرا ایک ایک عمل انفرادی نہیں ہے اجتماعی ہے‘ اس کاا ثر گھر پر‘ اس کا اثر نسلوں پر‘ اس کا اثر اس مختصر زندگی کے چال چلن پر اور اس کا اثر کروڑ وں اربوں کھربوں سال کی زندگی جو مرنے کے بعد کی زندگی ہے‘ پر پڑتا ہے۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں